اسلام آباد(نیوز ڈیسک ) وزارت پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے افسران کی کاہلی اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر ملک میں گیس کمپنیوں کی پیداوار اور فروخت میں بہت بڑے فرق کا انکشاف ہوا ہے جس سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچایا گیا، آڈٹ حکام نے ملکی خزانے جو پہنچنے والے اس نقصان کی ریکوری کیلیے سخت اقدامات کرنے کی سفارش کر دی ہے۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی طرف سے صدر مملکت اور قومی اسمبلی کو بھیجی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مائنز،آئل فیلڈ ریگولیشن و منرل ڈیولپمنٹ ایکٹ 1948کے رولز 36ا?ف پاکستان پٹرولیم رولز 1986کے مطابق اگر کسی کمپنی کو لیز دی جاتی ہے تو اسے پٹرولیم پروڈکشن اور محفوظ کی جانے والی گیس ویل ہیڈ ویلیو کا 12.5 فیصد رائلٹی کی مد میں حکومت کو ادا کرنا ہو گا،۔

ڈی جی پی سی اسلام آباد نے مالی سال 2013-14کے دوران اوجی ڈی سی ایل کی طرف سے فروخت کی جانیوالی گیس کی مقدار، پیداوار اور محفوظ کی جانے والی گیس کے درمیان فرق کو شمار نہیں کیا،گیس کی اتنی بڑی مقدار پروڈیوس اورمحفوظ نہیں کی گئی جتنی بڑی مقدار میں اس کی فروخت کو ظاہر کیا گیا ہے۔اس مقصد کے لیے گیس کی پروڈکشن اور فروخت کے لیے صرف 6 فیلڈ ا?پریٹرز کا جائزہ لیا گیا جس کے نتیجے میں 1ارب 2کروڑ 55 لاکھ سے زائد خطیر رقم رائلٹی کی مد میں کم وصول ہوئی، اس خرابی کو دسمبر 2014میں متعلقہ ڈپارٹمنٹ کو پوائنٹ  کیا گیا لیکن ڈپارٹمنٹ نے ابھی تک اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد ڈی اے سی کی میٹنگ کا انعقاد ہوا تو یہ مسئلہ اٹھایا گیا اور ڈی جی پی سی سے ملکی خزانے کو پہنچنے والے نقصان پر تفصیلی جواب 15روز میں طلب کیا گیا لیکن ڈی جی پی سی نے بھی کسی قسم کا کوئی جواب دینے کی زحمت نہیں کی۔آڈٹ حکام نے سفارش کی ہے کہ گیس کی پیداوار اور اس کی فروخت کے بارے میں او جی ڈی سی ایل سے نئے سرے سے صرف ان 6 فیلڈ ا?پریٹرز بلکہ ملک بھر کی فیلڈ آپریٹرز کا تفصیلی جواب مانگا جائے، اگر او جی ڈی سی ایل جواب دینے میں ناکام رہتا ہے تو قومی خزانہ کی ضائع ہونے والی ساری رقم اس سے وصول کی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں